صبح کا وقت ایسا نہیںہے کہ آپ بچوں کو منظم کرنے کا درس دیں اور نہ آپ اس دوران اصرار کریں آپ انہیں سکول چھوڑتے وقت خاموش رہیں تو زیادہ بہتر ہے۔ صبح کے وقت چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپ کا شور مچانا نہ صرف آپ کے لیے بلکہ بچوں کے لیے بھی مفید ثابت نہیںہوگا۔ اس طرح سارا دن آپ کا بدمزگی کی نذر ہوسکتا ہے اور آپ ممکن ہے پورا دن چڑچڑے پن کا شکار رہیں۔ لہٰذا بہت بہتر ہے کہ صبح کے وقت آپ کم سے کم گفتگو کریں یاد رکھیں صبح کا پریشان کن آغاز شام کا پریشان کن اختتام بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
اکثر بچے سکول جانے سے قبل باربار ماں کا منہ چومتے ہیں۔ بعض اپنے تمام کھلونوں سے باری باری پیار کرتے ہیں خصوصاً بچیاں اس معاملے میں زیادہ جذباتیت کا اظہار کرتی ہیں بھالو وغیرہ سے باقاعدہ گفتگو کرتے ہوئے بچوں کودیکھا گیا ہے۔ اس دوران بعض مائیں پریشانی کا اظہار کرتی ہیںاور اکثر اوقات ڈانٹ بھی دیتی ہیں۔ یہ طریقہ مناسب نہیں۔ ایسی صورت میں بچے کو اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے انہیں بتایا جائے کہ تمہارے کھلونوں کو کوئی نہیں چھیڑے گا۔ جب تم سکول سے واپس آئو گے تو یہ تمہیںایسے ہی ملیں گے کوئی چیز یہاں سے غائب نہیں ہوگی۔اکثر گھروں میں کھانے کا وقت میدان جنگ کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ اگر تین چار بچے ہوں تو وہاں اس قسم کی صورتحال کا والدین کو اکثر سامنا رہتا ہے۔ کھانے کی میز پر والدین کو تحمل و برداشت اختیار کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ خصوصاً ایسے وقت جب آپ اتنی محنت سےکھانا تیار کریں اور کوئی بچہ کھانے سے انکار کردے اور اس چیز کا مطالبہ کرے جو فوری طور پر بنانا آپ کے لیے ممکن نہیں اور آپ کی کوئی دھمکی بھی کارگر ثابت نہ ہو۔ تو آپ کے لیے خود پر قابو رکھنا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔دراصل کھانا وہ واحد عمل ہے جس میں کمسن بچہ محسوس کرتا ہے کہ وہ اس پر مکمل اختیار رکھتا ہے۔ لہٰذا کھانے سے انکار کرکے وہ اپنے اس خود مختارانہ احساس کو تقویت دیتا ہے اور کسی حد تک اس سے لطف اندوز بھی ہوتاہے۔ اس میں وہ ماں کو ہدایت دیتا ہے کہ مجھے فلاں چیز چاہیے۔
اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض والدین دودھ کے معاملے میں بچوں پر سختی کرتے ہیں انہیں دودھ زبردستی پلایا جاتا ہے۔ اگر کوئی بچہ دودھ پینےسے انکار کردے تو ناشتے میں ایک کپ دہی اسے کافی غذائیت فراہم کردے گا یا ایک کپ پھلوں کا جوس بھی دودھ کا بہتر نعم البدل ثابت ہوگا۔ ناشتے کے معاملے میں بھی بچوں پر زبردستی نہ کریں تو بہتر ہے آپ کی کوشش ہونی چاہئے کہ ناشتہ ہلکا پھلکا مگر صحت بخش ہو۔ کسی بھی نئی غذا سے متعارف کراتے وقت نرمی کا مظاہرہ کریں۔ اگر آپ انہیں مجبور کریں گے تو بچے چڑجائیں گے اور اس طرح اچھی چیز سے بھی خود کو دور کرلی گے۔ آپ وہ چیز پہلے خود کھائیں پھر اس کے ذائقے کی تعریف کریں۔ اس سےبچوں کو کھانے کی ترغیب ملے گی۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ زبردستی ٹھونسی گئی غذا بجائے فائدے کے بچوں کے لیے نقصان دہ بھی ثابت ہو جاتی ہے۔
بچوں کے سامنے پوری غذا رکھنے سے بہتر ہے کہ ان کی پلیٹ میں غذا کا تھوڑا سا حصہ رکھیں گے۔ اگر وہ اس کو پسند کریں تو مقدار بڑھاتے جائیں اس سے غذا کے ضیاع کا احتمال جاتا رہے گا۔ جب بچے سکول سے واپس آئیں اور کھانے کی میز پر بیٹھ جائیں تو آپ انہیں کھانے کے ادب و آداب سکھانے سےگریز کریں۔ اس وقت وہ کسی قسم کے لیکچر سننے کے موڈ میں نہیں ہوں گے اور نہ آپ کی باتیں ان پر اثر کریں گی۔ بچوں کی خوراک سے متعلق چند باتوں کو ہمیشہ ذہن میں رکھیں۔جب آپ کا بچہ مزیدکھانا کھانے سے انکار کردے تو اسے زبردستی کھانے پر مجبور نہ کریں۔یہاں تک کہ اگر بچہ جسامت میں کمزور ہے تب بھی اسے زیادہ کھانے پر مجبور نہ کریں۔ آپ اس کی خوراک کو باقاعدہ بنائیں یعنی آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ آپ کے بچے کی اصلی خوراک کیا ہے۔ بچوں کو دی جانے والی خوراک بہرصورت متوازن ہونی چاہئے اس میں ہرقسم کی غذائیت کا خیال رکھا جانا ضروری ہے۔ دودھ اور دہی کا استعمال ضرور کرائیں۔ نئی خوراک سے بچوں کومتعارف کراتے رہیں۔ ایک ہی قسم کی غذا سے بچہ اکتاہٹ کا شکار ہوجائے گا۔خوراک کا تعین کرتے وقت بچوں سےبھی مشورہ کریں اوربہتر ہوگا کہ پورے ہفتے کا چارٹ تیار کریں۔ بچوں کو ناشتے کے بغیر کبھی سکول نہ بھیجیں۔ اگر کوئی بچہ ناشتے سے غفلت کامظاہرہ کرتا ہے تو اس عادت کی مناسب طریقے سے حوصلہ شکنی کریں۔ پاپ کورن، بسکٹ ، ٹافیاں ، چیونگم وغیرہ سے بچوں کو دن کا آغاز نہ کرنے دیں۔ ہوسکے تو حتیٰ الامکان ان چیزوں سے بچوں کو دور رکھیں۔ کیونکہ ان چیزوں کو کھانے سے بچوں کو بھوک کم لگتی ہے اس طرح وہ وقت پر کھانا نہیں کھائیں گے۔ سارا دن کچھ نہ کچھ کھاتے رہنے کی عادت بچوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے اس سے وہ موٹاپے کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا بچوں میں اس عادت کو پختہ نہ ہونے دیں۔ غذا میں سلاد اورپھلوں کو رضور شامل رکھیں اس سے ان کی ہروقت کھاتے رہنے کی عادت میں بھی کمی آئے گی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں